اک شہر محبت کو بسانے کی تمنی
اور امن سے بھر پور فضاؤں کی تمنی
احساس کا رشتہ ذرا بیدار ھو جس سے
اک شمع محبت کو جلانے کی تمنی
جس شہر میں ہر آن ھوں نفرت کی فضائیں
کمزور پسے ظلم کی چکی میں ھمیشہ
ھوں غربت و افلاس سے اموات کی کثرت
اک گھر میں تو بھوکے ہی سوجائیں گے بچے
بنگلے میں نہ کتا بھی کبھی بھوک سے تڑپے
کچھ لوگ تو جھگی میں سردی سے ٹھٹریں
صاحب کو تو ہیٹر بھی بلینکٹ بھی میسر
گویا کہ ھے اک آسمان اور اگلا زمیں ھے
نہ کوئ عدالت ھے نہ انصاف میسر
مظلوم کی آنہوں سے مکدر ھیں فضائیں
ظالم کو پکڑنے کا تصور بھی ھو محال
اس دیس میں یہ کیسی تمنائیں ھیں یارب
اے کاش کوئ ایسا مسیحا ھو نمودار
بن جائے وہ ظلمت میں اجالا ہی اجالا
قرآن سے بڑھ کر بھی ھے کیا کوئ مسیحا
اے کاش یہ اھل وطن خواب سے جاگیں
قرآن کی تعلیم کو اپنا کے چلیں گر
ہوں سنت و حکمت سے بھر پور فضائیں
ایثار ھو بو بکر سا انصاف عمر سا
مضبوط علی جیسا سخاوت میں ھو عثمان
اے کاش وطن میں کوئ خالد سا کھڑا ھو
سلمان سا جری ھو طلحہ سا بہادر
جم جائے حق پہ کوئ بلال حبشی سا
اے کاش کہ احساس جوانوں میں ھو بیدار
جس دھرتی کی بنیاد میں اسلاف کا خوں ھے
جس دھرتی کو اسلام کے خاطر تھا بنایا
اس دھرتی کو ھم خود ہی کیا برباد کریں گے؟؟
اب وقت نہیں اوروں پہ الزام لگائیں
ہر شخص ہے مجرم جو نہ احساس کرے اب
اپنا وطن ہو امن کا انصاف کا مرکز
ایثار کے جذبوں سے فضائیں ھوں معطر
چھوٹے بڑے امیر و غریبی کا امتیاز
سب ملکے مٹائیں گے ھم اپنے وطن سے
اے دیس تیری خوشیوں کے خاطر ہی جیئیں گے
محنت سے محبت سے بچائیں گے تجھے ھم
قرآن و سنت کی بنیاد پہ چل کر
ھم تجھ کو بچائیں گے ھم تجھ کو بچائیں گے
( ان شاءاللہ )
اھلیہ ” ڈاکٹر عثمان انور “
کے قلم سے