38.9 C
Karachi
Saturday, May 18, 2024

“بچپن کی یادیں”

ضرور جانیے


اسے آج بچپن بھت یاد آرھا تھا وہ سوچ رھی تھی ھمارا بچپن کتنا خوبصورت تھا چھوٹے چھوٹے کھلونے چھوٹی چھوٹی خواہشات سہیلیوں کے ساتھ شام کو کھیل کر مغرب کے بعد ھوم ورک کرنا کچھ سمجھ نہ آئے تو ابوجان رحمہ اللہ سے پوچھ لینا پھر رات کو بھائ جان آتے خوب باتیں ھوتیں سونے سے پہلے امی جان رحمہ اللہ دودھ گرم کرکے سب کو دیتیں تو وه امي كو خوب تنگ کرتی امی پیچھے پیچھے کپ لے کر پھرتیں اور وہ کہتی دودھ نھی پینا لیکن امی تھیں کہ پلا کر ہی دم لیتیں
ابو جان روز رات کو دیر سے کھانا کھاتے اور کھانے کے دوران بھت پیارے علمی قصے سنایا کرتے اسکول چونکہ دوپہر کا تھا تو فجر کی نماز کے علاوہ صبح کی کوئ فکر نہ ھوتی
ابوجان فجر میں ایک آواز لگاتے اور سب آٹھ کے کھڑے ھوجاتے
فجر کے بعد سب کے ہاتھوں میں قرآن پاک ھوتا کچھ دیر تلاوت کرنا تو گویا سب پہ لازم تھا
پھر ابوجان اور بھائ جان کو ڈیوٹی پہ جانا ھوتا امی گرما گرم پراٹھے بناتیں سب ملکر ناشتہ کرتے
کتنی قربت کا احساس تھا اس ماحول میں کیونکہ ھماری محبتوں میں موبائل کی طرح کوئ شریک نھی تھا
پڑوسن خالہ بیمار ھوتیں تو ایسا لگتا ھمارے گھر میں کوئی بیمار ھے امی ابو جان کی دوسروں کے لئے اتنی فکر اتنی بھاگ دوڑ پھر ہر بات کے بعد ایک جملہ کان میں پڑتا
کوئ بات نھی کسی کے کام آنے سے اللہ تعالی بھت خوش ھوتے ھیں بھت ثواب ملتا ھے
ابوجان کا رعب ایسا تھا کہ امی جان ایک جملہ بولتیں تھیں” بتاؤں تمھارے ابو کو ” اور مجال ھے کہ پھر کوئی امی جان سے بحث کرسکتا کسی بھی بات پر
تربیت کے بہترین اصول تھے ھمارے بڑوں کے پاس ایک طرف ابوجان سے کانپنے کی کیفیت تو دوسری طرف ان سے زیادہ گہرا دوست ھمارا کوئ نہ تھا
اور شاید یہی ماں باپ کا صحیح رول ھے کہ غلط بات پہ انتہائی سختی اور اصول پسندی اور عمومی طور پر شفقت اور پیار کا سمندر
ایک طرف دین کے بنیادی اصول اور فرائض واوامر سکھانے کی فکر اور دوسری طرف دنیاوی علوم و فنون میں مہارت سکھانے کا عزم کہ ترقی کی دوڑ میں ھم پیچھے نہ رہ جائیں
ھم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ھمیں ایسے تربیت کرنے والے والدین نصیب ھوئے اللہ انکی قبروں کو رحمت اور نور سے بھر دیں آمین ثم آمین
بس یادوں کے اس بھنور میں گھری تو اس کے آنسؤوں کی لڑی ایسی ٹوٹی کہ پھر ہچکیاں بندھ گئیں بیٹی نے آکے پوچھا امی آپ کیوں رو رھی ھیں خیریت ھے؟
کیا بتاؤں بیٹی زمانہ کی اس تیزی سے تبدیلی نے رلادیا دل بھت غمگین ھے ھم کتنا معصوم پیارا اور محبت بھرا بچپن گزار کر آئے ھیں اور تم دیکھو آج بچوں کا کیا بچپن ھے؟؟؟
ہر وقت موبائل فون اور ویڈیو گیمز یہاں تک کہ ماں باپ بھی اسی میں مشغول ھیں وہ پیار بھرے لمس وہ ماں باپ سے جڑ کے بیٹھنا اور ان سے مفید باتوں کا سننا سب پچھلے لوگوں کی پرانی باتیں بن کر رہ گیا ؟
نہ کوئ تربیت نہ کوئ طور طریقے
گھروں میں جب ہر وقت ایک انوکھی مخلوق “موبائل “سب کے ذہنوں پہ سوار ھے تو بھلا بچوں کی خاک تربیت ھوگی
امی آپ ٹھیک کہہ رھی ھیں لیکن اس بھنور سے اب نکلنا ممکن نھی رھا بیٹی نے ماں کو تسلی دیتے ھوئے کہا
بیٹی کوئ چیز دنیا میں ناممکن نھی ھے اللہ تعالی کا وعدہ ھے کہ اللہ تعالی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جسے خود اپنی فکر نہ ھو
اگر ھمیں یہ ادراک ھوگیا ھے کہ موبائل کے بے جا استعمال سے زندگیاں اجڑ رھی ھیں مستقبل تباہ ھورھے ھیں تو ھمیں عقل سے کام لینا ھوگا جیسے کینسر کی بیماری کا پتہ لگتے ھی مریض کو ایسے نھی چھوڑ دیتے کہ اب تو ھوگیا کیا کیا جاسکتا ھے بلکہ آخری وقت تک اس کی اس بیماری سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ھے ھمیں بھی اس موبائل کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے قدم بڑھانا ھوگا ورنہ خدانخواستہ یہ ھمیں اور ھماری نسل کو برباد کردے گا

ہر گھر میں سب گھر کے بڑوں کو مل کر مشورہ کرنا ھوگا
کہ ھم اپنے وقت کو منظم کریں گے ترتیب دیں گے
جیسے ھمیں بچپن میں سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کی اجازت ھوتی تھی اس کے بعد امی یا باجی کی آواز آجایا کرتی تھی اور ھمیں پتہ ھوتا تھا کہ بات نہ مانی یا دیر کی تو ابوجان سے پھینٹی لگ جائے گی جو بھت تکلیف دہ ھوتی تھی لہذا بہتر ھے بات ھی مان لی جائے
اسی طرح ماں باپ کو سب سے پہلے قربانی دینی ھوگی کہ اتنے بجے گھر کا وائے فائے سم کا نیٹ کچھ کسی کو چلانے کی ہر گز اجازت نہ ھوگی
جاننے والوں رشتے داروں سے کہہ دیا جائے کہ کسی اشد ضرورت کے وقت آپ نارمل فون پہ میسیج یا فون کریں مثلا رات 11 کے بعد نیٹ نھی چلے گا ھمارا
خصوصا کھانا کھاتے ھوئے کسی کو نیٹ دیکھنے کی ہرگز اجازت نہ ھو یہ تو صحت کے اصول کے بھی خلاف ھے
پھر انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اپنے بڑوں کی مفید باتوں پہ مشتمل کتابوں کا روز گھروں میں پڑھنے کا معمول ھو گھر کے بڑے بچوں سے اسلاف کے قصے بیان کرکے ان میں سے سبق آموز باتوں کو آج کے دور کے حساب سے مفید بناکر بچوں کے سامنے پیش کریں
ایمان داری بہادری سچائ حسن خلق
ایثار عدل وانصاف وعدے کی پابندی
سخاوت عاجزی و انکساری بیٹی یہ صفات بچوں میں والدین پیدا کیا کرتے ھیں بہترین تربیت کے ذریعے
اس لئے اگر ھمیں اپنی اگلی نسل کو اس موبائل کے مضر اثرات سے بچانا ھے توبس چند اصول مقرر کرکے اس پہ جمنا ھوگا لیکن ایسے ممکن نھی کہ بچوں کو ڈانٹ کر نیٹ رات کو بند کیا اور بچوں کے سوتے ہی ماں باپ خود رات بھر نیٹ پر لگے رہے
بلکہ گھروں میں سونے اٹھنے کے نظام سب کے لئے مرتب کرنا ھونگے

بیٹی غور کرو جس نسل کے رکھوالے فکر والے نہ ھونگے وہ نسل کیسے باشعور امانت دار بااخلاق علوم و فنون میں ماھر ھوگی؟؟؟
ھمارے سب بڑے ھمارے خاطر قربانی دینے والے تھے تب جاکر ھماری عمر کے لوگ کچھ بن سکے ورنہ ھم آج جس جگہ ہیں کبھی نہ ھوتے
اور آج کے بچوں کو جن چیلنجز کا سامنا ھے ان سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے لئے اس وقت کے سب بڑوں خصوصا نوجوان شادی شدہ نسل کو قربانی دینی ھوگی اور بچوں کو کثرت سے اپنے ساتھ شفقت سے انگیج کرنا ھوگا ورنہ یہ خدانخواستہ موبائل یا کسی دوسری جگہ انگیج ھوکر اپنا سب کچھ کھو بیٹھیں گے
یاد رکھو بیٹی ایک نسل کی قربانی سے دوسری بہترین نسل تیار ھوتی ھے !!
جی امی آپ ٹھیک کہہ رھی ھیں ھم سب مل کر ان شاءاللہ قربانی دیں گے تاکہ اگلی نسل کا مستقبل محفوظ ھوسکے **
آپ نے بھت مفید باتیں بتائیں پیاری امی جان اب آئیے ملکر چائے پیتے ھیں میں نے گرما گرم چائے اور پکوڑے بنائے ھیں
ارے واہ تم نے تو میرے ڈپریشن کو گرما گرم چائے اور پکوڑوں سے دور کرنے کا بہترین پروگرام بنایا
یوں بچپن کی یادوں اور زمانے کی تبدیلیوں کے ڈپریشن سے نکلنے کا وقتی سامان تو ھوا کاش کہ یہ دائمی حل ھوتا
.اور پھر اللہ سے اس مسئلہ کے دائمی حل کے لئے دعا مانگتے ھوئے وہ چائے پینے لگی

تحریر اھلیہ ڈاکٹر عثمان انور

پسندیدہ مضامین

اردوسٹوریز"بچپن کی یادیں"