35.9 C
Karachi
Saturday, May 18, 2024

احساس کا رشتہ

ضرور جانیے

اس نے جب سے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا اس قدر مصروف ھوگئ تھی کہ صرف پڑھائ کے علاوہ گھر والوں تک کے لئے وقت نکالنا مشکل ھوجاتا تھا

آج بھت عرصہ بعد بھابھی کے بہت اصرار پر وہ شاپنگ مال جانے پر راضی ھوئ ورنہ تو بھابھی سے کہہ دیا تھا کہ میرے لئے فلاں فلاں چیزیں لے آئیے گا مگر بھابھی نہ مانیں کہ خود چلو اور اپنی پسند کی چیزیں لو

خیر مارکیٹ پہنچ کر اسے ایسا لگا جیسے وہ کسی اور دنیا میں آگئ ھو مستقل کتابوں کا کیڑا بنے رہنے کے بعد وہ بھول ہی گئ تھی کہ باہر کی دنیا میں کیا ھورہا ھے

لگ رہا تھا کہ پوری پبلک ہی شاپنگ کو نکل پڑی ھے خیر جناب بڑی مشکل سے شاپنگ مکمل ھوئ تو بھابھی اسے ایک دکان کے آگے کھڑا کرکے چلی گئیں وہ پیچھے کچھ بھول آئیں تھیں .وہ جس دکان کے آگے کھڑی تھی وہاں برگر والے نے کیبن لگا رکھا تھا .وہ دلچسپی سے برگر والے کے تیزی سے چلتے ھاتھوں کو دیکھ رھی تھی کہ جو انتہائی اسپیڈ کے ساتھ برگر بناکر پیش کررھا تھا .

اسی اثناء میں اس کی نظر ایک بچے پہ پڑی جو انتہائی بوسیدہ حال بچہ تھا اور برگر والا جو لوگوں کی پلیٹوں میں بچے ھوئے جھوٹے برگر ایک ڈبے میں نیچے پھینک رھا تھا یہ بچہ اسے نیچے چھپ کر ایک شاپر میں جمع کر رہا تھا وہ بھت حیران ھوئ پھر اس نے دیکھا کہ وہ بچہ تھیلی میں لوگوں کے منہ کے جھوٹے برگر جمع کرکے سامنے فٹ پاتھ پہ بیٹھ گیا کچھ اور بچے بھی اسے دیکھ کر آگئے اور یہ سب بچے مل کر کھانے لگے.اس منظر کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوں نکل پڑے.

یا اللہ ایک وطن ایک شہر ایک معاشرے میں رہتے ھوئے اتنا زیادہ طبقاتی فرق
کہ کوئ ھم جیسے بازاروں میں ہزاروں روپے کی میچنگ جیولری صرف ایک دن پہننے کے لئے خرید لیں اور دوسری طرف یہ بچے اتنے بھوک سے بے چین کہ دوسروں کا جھوٹا کھانے پر مجبور ہیں ایک طرف ھم یہودی بربریت سے متاثر ھونے والے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی بھوک کا رونا روئیں اور دوسری طرف ھم خود اپنے وطن کے بچوں کی بھوک سے جان بوجھ کر نظریں چرائے رکھیں اس سے بڑی سنگدلی اور کیا ھوگی.

آج گاڑیوں میں پھرنے والے بنگلوں میں رہنے والے شاپنگ سینٹرز میں خوب مہنگی شاپنگ کرنے والے اپنی خوشیوں اور تقریبات میں اسراف کرنے والے سب مل کر روز صرف ایک غریب گھرانے کی خبر گیری کی ذمہ داری لے لیں تو ھمارے وطن میں کوئ بھوک سے مجبور ھوکر دوسروں کا جھوٹا کھانا نہ کھائے الیکشن میں کھڑے ھوتے وقت دعوے کرنے والے نمائندے قومی اسمبلی کے قریبا 272 اور صوبائی اسمبلی کے قریبا 168 نمائندے اگر یہ عزم کرلیتے کہ ھمیں جتنا وقت ملے گا تو ہر سال کم ازکم 10 گھرانوں کی زندگی بدلیں گے انھیں غربت اور افلاس کی دلدل سے نکال کر معاشرے کے آسودہ حال طبقے کے ساتھ لا کھڑا کریں گے تو یقینا ہر سال کتنے گھرانوں کو بھیک مانگنے سے بھی نجات مل جائے اور آہستہ آہستہ ملک سے غربت اور افلاس کا خاتمہ بھی ھوجائے

کیونکہ غریبوں کو کھانا کھلا کر اپنی تصاویر سوشل میڈیا پہ وائرل کروا دینا کوئ بڑی بات نہیں ہے اصل نیکی تو یہ ھے کہ کسی ہاتھ پھیلانے والے مفلس کو ایسی روزگار یا آمدنی کا ذریعہ میسر کیا جائے کہ جب وہ محنت کرکے ہر ماہ اپنے بچوں پہ اپنی محنت کی کمائی خرچ کرے تو اسے بھی دلی خوشی ھو اور وطن عزیز کی فضاؤں میں بھی محنت کش طبقہ کی برکت سے خوشحالی کی ہوائیں چلنا شروع ھوجائیں

وہ سوچتی رہی اور اس کے آنسوں بہتے رہے اتنے میں بھابھی آگئیں اور پریشان ہوکر پوچھنے لگیں خیریت مائرہ تم کیوں رو رھی ھوں آنسوں پوچھتے ھوئے اس نے بھابھی کو بچوں کا سارا واقعہ سنایاوہ کہنے لگی بھابھی مجھے آج پتہ چلا کہ “”احساس کا رشتہ “”کیا ھوتا ھے.

چلیں ھم ان بچوں کی کچھ مدد کرتے ھیں اور وہ بھابھی کو لے کر فٹ پاتھ پہ بیٹھے ان معصوم مفلس بچوں کی طرف چل دی تاکہ اپنی وسعت کے مطابق ان کی مدد کر سکےکاش ھمارے وطن کے ہر فرد کے اندر احساس کا رشتہ بیدار ھوجائےاور یہی تو وہ صفت ھے جو قوموں کو ترقی کی منازل طے کرواتی ھے.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین مکہ کے ساتھ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مہاجرین بے سروسامان تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مؤاخات کارشتہ قائم فرمایا تو ایک ایک انصاری صحابی نے اپنے دل و جان سے قربانی دی اور اپنے مال اور کاروبار کے حصے حتی کہ جس کی دو بیویاں تھی وہ اپنی ایک بیوی دوسرے مہاجر بھائ کی خدمت میں نکاح کے لئے پیش کرنے کو تیار ھوگیا

اور یوں”” احساس کے رشتہ “”کی بیداری سے چند سالوں میں کسمپرسی کی حالت میں ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین صحابہ کرام معاشی طور پر اپنے انصاری بھائیوں کے قریب آگئے اور بہترین اسلامی فلاحی ریاست کا وجود عمل میں آیا کیونکہ کسی ڈوبتی ھوئ قوم کو پستی سے نکالنے کی ذمہ داری صرف حکومت اور اھل حکومت ہی کی نھی ھوتی بلکہ پوری قوم کے ہر فرد کو”” احساس کا رشتہ”” بیدار کرنا ھوتا ھے اور پوری قوم کے ہر فرد کو کو محنتی اور جفاکش بننا پڑتا ھےکاش ھم سب ملکر عزم کرلیں اور ہر شخص کے دل میں دوسرے کے لئے احساس کا رشتہ بیدار ھوجائے اور سب اپنی اپنی جگہ یہ عزم کرلیں کہ اب میرے وطن کا کوئ بچہ یا شخص بھیک نھی مانگے گا اور کوئ معصوم بچہ بھوک سے بے چین ھوکر دوسروں کے جھوٹے برگر نھی کھائے گا

اللہ تعالی وہ دن جلد لے آئیں جب ھم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ایکدوسرے کے لئے قربانی دینے والے بن جائیں تو دراصل” ریاست مدینہ ” کی مثالیں خواب دیکھنے سے نہیں بلکہ قربانی دینے سے بناکرتی ھیں اور قربانی اور احساس کا رشتہ صرف اور صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت طیبہ کے مطالعے اور اس پہ عمل کرنے سے پیدا ھوسکتا ھے
اللہ ھماری قوم کے ایک ایک فرد میں

“”احساس کا رشتہ “” بیدار فرمادیں آمین ثم آمین

تحریر اھلیہ ڈاکٹر عثمان انور

پسندیدہ مضامین

اردوسٹوریزاحساس کا رشتہ