ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے 1800 سی سی درآمدشدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا امکان.آل پاکستان موٹرز ڈیلر ایسوسی ایشن (اے پی ایم ڈی اے) کے چیئرمین حاجی محمد شہزاد نے کہا ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے سے درآمد شدہ 1800 سی سی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی۔
انہوں نے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اگر اس فیصلے پر جلد عمل درآمد کیا گیا تو ڈالر کی قیمت میں ممکنہ اضافے کے باوجود آنے والے مہینوں میں گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی۔
انہوں نے ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ نے گاڑیوں کو مزید مہنگا کر دیا تھا جس کا فروخت اور خریداری پر منفی اثر پڑا تھا۔
شہزاد کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں نے انہیں خریدنا بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے انڈسٹری کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
مثال کے طور پر ہونڈا اٹلس کارز لمیٹڈ، جو ایک سال میں 50,000 گاڑیاں فروخت کرتی تھی، 2023 میں صرف 10،000 گاڑیاں فروخت کر سکی۔
چیئرمین
اے پی ایم ڈی اے کے چیئرمین نے تجویز دی کہ اگر پاکستان گاڑیاں درآمد کرنے کے بجائے تیار کرے تو نہ صرف قیمتیں کنٹرول میں آئیں گی بلکہ حکومت سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ریونیو بھی اکٹھا کرسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1980 کی دہائی میں دستخط ہونے والے ایم او یو کے مطابق پاکستان کو پانچ سال کے اندر ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی لانا تھی اور گاڑیاں خود تیار کرنی تھیں لیکن بدقسمتی سے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اگر تین سال سے زیادہ پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کو تبدیل کرکے پانچ یا سات سال کر دیا جائے تو اس سے آٹوموٹو انڈسٹری پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اعداد و شمار
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں مجموعی طور پر 85 ہزار 776 یونٹس فروخت ہوئے جو مالی سال 22 کے اسی عرصے کے دوران فروخت ہونے والے ایک لاکھ 72 ہزار 612 یونٹس کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہیں۔
دریں اثنا، پاکستان میں کار کمپنیوں نے حالیہ مہینوں میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے، جس میں دیگر عوامل کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی کا حوالہ دیا گیا ہے۔
حکومت نے ڈالر کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لئے بھاری ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے سمیت درآمدات کو محدود کردیا تھا کیونکہ ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران کا سامنا ہے۔