پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی ایم پی او کے تحت گرفتار.جیو نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے بعد اس کے سینئر رہنما شہریار آفریدی کو پولیس نے منگل کی علی الصبح گرفتار کرلیا۔
پی ٹی آئی رہنما کی گرفتاری پارٹی کے خلاف حکومت کے جاری کریک ڈاؤن کا تسلسل ہے، جو 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے بعد شدت اختیار کر گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے سابق وزیر کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 سے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کی دفعہ 3 کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ادھر پنجاب میں سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو بھی پولیس نے راولپنڈی کے علاقے مری روڈ، لیاقت باغ سے گرفتار کیا۔
انہیں راولپنڈی پریس کلب پہنچنے سے روکنے کے لیے بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چوہان کے خلاف 9 مئی کو صادق آباد تھانے میں احتجاج کے دوران آتشزنی اور کارکنوں کو اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
چوہان پر سکستھ روڈ پر میٹرو اسٹیشن کو نذر آتش کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کا بھی الزام ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کی 18 مئی تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
دی نیوز نے خبر دی ہے کہ پولیس نے گزشتہ رات چوہان کے گھر پر بھی چھاپہ مارا لیکن وہ اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی فہرست
شاہد آفریدی اور چوہان دونوں پی ٹی آئی رہنماؤں کی فہرست میں شامل ہیں جن میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، اعجاز چوہدری، علی محمد خان، جمشید اقبال چیمہ اور عمر سرفراز چیمہ شامل ہیں، ان تمام کو خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں تشدد کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے “غیر قانونی” قرار دیا تھا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو حراست میں لیے جانے کے دو دن بعد رہا کر دیا گیا تھا لیکن ان کی جماعت کے سیاست دانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور متعلقہ حکام کی جانب سے کارروائی سست روی کا شکار ہے۔
گرفتاری کے دوران گرفتار ہونے والی پارٹی کی خواتین رہنماؤں میں ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر یاسمین راشد، ملیکہ بخاری اور دیگر شامل ہیں۔
سندھ میں صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی کے سابق وزیر علی زیدی کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا۔
اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن پیر کی رات کو جاری کیا گیا تھا۔ زیدی کو 9 مئی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارچی کے علاقے بلوچ کالونی میں ہنگامہ آرائی کے بعد گرفتار کیا تھا۔
بعد ازاں ان کے اہل خانہ کی جانب سے ان کی نظر بندی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ سندھ حکومت نے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو ہونے والے اجلاس میں زیدی کے گھر کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔