مائیک پینس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات میں جیوری کے سامنے گواہی دے دی.امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق امریکی نائب صدر مائیک پینس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف 2020 کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے اور 6 جنوری کو کیپیٹل ہل واقعے کے معاملے میں گرینڈ جیوری کے سامنے گواہی دی۔
پینس کی گواہی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہ اس وقت سینیٹ کے صدر تھے اور اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں کہ ٹرمپ کیا سوچ رہے تھے جس کی وجہ سے 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملہ ہوا۔
اپنی یادداشت اور وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون میں انہوں نے سابق صدر کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں لکھا، حالانکہ کچھ تفصیلات واضح نہیں تھیں۔ 63 سالہ پینس نے 6 جنوری کے فسادات کے بعد ٹرمپ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
تحقیقاتی ٹیم
اسپیشل کاؤنسل جیک اسمتھ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم کی توجہ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات کی توثیق کے نتائج کو روکنے کی کوششوں پر مرکوز ہے۔
سابق نائب صدر واشنگٹن میں وفاقی عدالت میں سیکیورٹی میں اضافے کے ساتھ پہنچے۔
مارچ میں ایک وفاقی جج نے مائیک پینس کو حکم دیا تھا کہ وہ سبپوا کے ذریعے عدالت کے سامنے گواہی دیں۔
76 سالہ ٹرمپ نے پینس کو گواہی دینے سے روکنے کے لیے خصوصی استحقاق کا استعمال کیا لیکن وہ گواہی کو روکنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ کی اپیل کو بدھ کے روز ایک وفاقی اپیل عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
اپنے سابق نائب صدر کی گواہی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے این بی سی نیوز کو بتایا: “مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کہا، لیکن مجھے ان پر بہت اعتماد ہے.”
پینس نے عدالت کے سامنے گواہی دی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2020 کے انتخابات سے قبل اسٹینڈ بائی پر رہنے کا حکم دینے والے انتہائی دائیں بازو کے گروپ پراؤڈ بوائز کے ارکان بھی اپنے غداری کے معاملے میں جیوری کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔
سابق رہنما اینریک ٹیریو
اختتامی دلائل میں پراؤڈ بوائز کے سابق رہنما اینریک ٹیریو کے وکیل نے کہا کہ وفاقی حکومت ٹیریو کو ٹرمپ کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پینس کی ٹیم کا کہنا تھا کہ انہیں آئین کی ‘تقریر یا بحث’ کی شق کے تحت تحفظ حاصل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قانون سازوں کو قانون سازی کی سرگرمیوں کے بارے میں گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس شق کا اطلاق ان پر ہونا چاہیے کیونکہ وہ 6 جنوری کو جب سامنے آئے تو وہ سینیٹ کے صدر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
تاہم ایک فیصلے میں وفاقی جج نے کہا کہ شق کے باوجود یہ انہیں ٹرمپ کے مبینہ غیر قانونی رویے کے بارے میں گواہی دینے سے نہیں روکتا۔
گزشتہ ماہ پینس نے کہا تھا کہ ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میرا ماننا ہے کہ ہم نے اس دن امریکی آئین کے تحت اپنا فرض ادا کیا اور اس معاملے میں میں نے سوچا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم دوبارہ اس آئینی اصول پر کھڑے ہوں۔’
انہوں نے یہ بھی کہا: “لیکن ہم فی الحال اپنے وکلاء سے آگے بڑھنے کے مناسب راستے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ غلط تھے۔ پینس نے مارچ میں سیاستدانوں اور صحافیوں کے لیے گرڈیرون ڈنر میں کہا تھا کہ مجھے انتخابات کو تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اور ان کے لاپرواہ الفاظ نے اس دن کیپٹل میں میرے خاندان اور ہر کسی کو خطرے میں ڈال دیا اور میں جانتا ہوں کہ تاریخ ڈونلڈ ٹرمپ کو جوابدہ بنائے گی۔’