پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اپنے حامیوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو وہ تشدد میں ملوث نہ ہوں۔
سابق وزیر اعظم کو القادر ٹرسٹ کیس میں بدعنوانی کے الزام میں 9 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن کچھ دنوں کی قید کے بعد وہ رہا ہوگئے تھے۔ اس حیرت انگیز اقدام کے بعد مشتعل حامیوں نے ملک بھر میں احتجاج شروع کر دیا جنہوں نے تشدد کا سہارا لیا اور سرکاری اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔
اس دن ہونے والی توڑ پھوڑ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے فوج نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تشدد بھڑکانے والوں اور مجرموں کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ پارٹی کو پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔
مذمت کے متعدد مطالبات کے باوجود، خان نے فوجی تنصیبات پر توڑ پھوڑ کی مذمت کرنے سے پہلے اپنا وقت لیا۔
الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی کے سربراہ نے منگل (23 مئی) کو دوبارہ گرفتاری کے خدشات کا اظہار کیا، جس دن وہ برطانیہ سے 190 ملین پاؤنڈز کی تصفیے کے حوالے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے پیش ہوں گے۔
انٹرویو
سی این این کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ‘منگل کو مجھے ضمانت کے لیے اسلام آباد میں پیش ہونا ہے اور اس بات کے 80 فیصد امکانات ہیں کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا’۔
تاہم سابق وزیر اعظم نے اپنے حامیوں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے تو توڑ پھوڑ نہ کریں ورنہ اس سے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو ایک بیانیہ ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر مجھے دوبارہ جیل بھیجا جاتا ہے تو میں تشدد نہیں چاہتا کیونکہ یہ پی ڈی ایم کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے’۔
ان کا ماننا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کی مقبولیت سے “خوفزدہ” ہے کیونکہ تمام جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی پارٹی آنے والے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے جیت جائے گی۔
”یہ پارٹیاں ہم سے خوفزدہ ہیں، اس لیے وہ ہمیں دبانے کے لیے تشدد کا استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر سروے کہتا ہے کہ ہم دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتیں گے اس لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو کچلنا چاہتی ہے۔
مزید برآں، پی ٹی آئی کے سربراہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہتے تو باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا سکتے تھے لیکن فوج کے معاملات میں مداخلت وہ نہیں تھی جو وہ چاہتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس میں آپ مداخلت نہیں کرتے۔