حکومت اور پی ٹی آئی انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات کی میز پر.اسلام آباد:سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت والی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان انتخابات کی تاریخ پر بات چیت ہوئی۔
ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر 3 میں تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فریقین نے ایک دوسرے کو اپنی اعلیٰ قیادت کے موقف سے آگاہ کیا۔ دوسری میٹنگ کل ہوگی۔
حکومتی وفد میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر تجارت نوید قمر شامل تھے، اپوزیشن کے وفد میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری اور پارٹی کے سرکردہ قانونی ماہر بیرسٹر علی ظفر شامل تھے۔
وفد نے حکومت کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے انتخابات کے حوالے سے مؤقف سے آگاہ کیا اور بتایا کہ انتخابات کیسے ہونے چاہئیں۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ حکمراں جماعتیں ایک دوسرے سے مشاورت کریں گی اور فیصلہ کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ تمام پارٹیوں کے ان پٹ کی بنیاد پر ہوگا۔
دو گھنٹے بعد مشاورت ختم کی
شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دو گھنٹے بعد مشاورت ختم کی اور اس بات پر زور دیا کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات میں کسی فیصلے پر پہنچنے کے جذبے کے ساتھ داخل ہوئے ہیں لیکن ہم مذاکرات کو انتخابات میں تاخیر کے حربے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ملاقات کے بعد ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے حکومتی وفد کے سامنے تین مطالبات پیش کیے:
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو رواں سال مئی میں تحلیل کیا جائے اور انتخابات کو 14 مئی سے آگے بڑھانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔
اگر حکومت آئین میں ترمیم کا فیصلہ کرتی ہے تو پی ٹی آئی کے استعفے واپس لینے ہوں گے۔
اس سال جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہونے چاہئیں۔
قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں جب انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تو وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مشروط مذاکرات کرے گی۔
سینیٹ
انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اور ہم اس سلسلے میں آج اپنے نمائندے بھیجیں گے لیکن بات چیت صرف ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے پر ہوگی۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں اہم ہے جب ملک میں شدید سیاسی اور معاشی بحران ہے کیونکہ سیاسی قوتیں نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھ بھی محاذ آرائی کا شکار ہیں۔
عدالت نے سیاسی جماعتوں کو 26 اپریل تک انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن ڈیڈ لائن تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ آج کی سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ فریقین کو زبردستی مذاکرات کرنے کے لئے نہیں کہہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت فریقین کو مذاکرات پر مجبور نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت صرف آئین پر عمل درآمد چاہتی ہے تاکہ تنازعہ حل ہو۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت مذاکرات کے خلاف ہے اور وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔
مولانا فضل الرحمان
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مشاورت کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا کام ہے، سیاسی جماعتوں کا نہیں۔
انہوں نے کہا، ‘سپریم کورٹ ہمیں زبردستی بات چیت کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک شخص (عمران خان) کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی برطرفی کے بعد شروع ہونے والی سیاسی افراتفری نے شدید معاشی بحران کو جنم دیا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تاریخی کم ترین سطح پر گر گیا ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ سے بھی کم درآمدی کور تک گر گئے ہیں۔