ماہرین نے گلابی آنکھوں کی الرجی کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنے پر زور دیتے ہوئے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹکس یا اسٹیرائڈز کے اندھا دھند استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس سے بیماری پیچیدہ ہوسکتی ہے یا آنکھوں کے کورنیا کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر فواد رضوی نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی کے اسپتالوں میں کنجنکٹوائٹس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ گلابی آنکھ کا وائرس وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن یا الرجی کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیکٹیریل کنجنکٹوائٹس کی علامات میں آنکھوں میں سرخی، لکیریں، سوجن، خارش یا جلن شامل ہیں۔
متاثرہ افراد
ایل آر بی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد کو تجویز کردہ آنکھوں کے قطرے استعمال کرنے اور اپنی آنکھوں کو ٹشوز سے صاف کرنے کا مشورہ دیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ افراد کو چاہیے کہ وہ متاثرہ آنکھوں پر ٹھنڈا پانی لگائیں تاکہ تکلیف سے کچھ راحت مل سکے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ بیماری کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ابتدائی احتیاطی اقدامات انتہائی اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آگاہی مہم کی کمی کی وجہ سے ہر سال پاکستان بھر کے ہسپتالوں میں کنجنکٹوائٹس کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، خاص طور پر موسم گرما اور موسم بہار کے مہینوں میں۔
مزید کہا کہ اس سال کراچی کنجنکٹوائٹس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو اچھی ذاتی حفظان صحت پر عمل کرتے ہوئے اور اشیاء کو بانٹنے سے گریز کرکے وائرس کی منتقلی کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرنا چاہئے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سٹیرائڈز اور گھریلو ٹوٹکے بعض اوقات مریضوں کو فوری راحت فراہم کرتے ہیں لیکن طویل عرصے میں زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایسے افراد کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کرنا چاہئے جن کو کنجنکٹوائٹس یا آنکھوں کا کوئی اور انفیکشن ہے۔